یوگی حکومت میں مذبح کے خلاف کارروائی سے لکھنؤ کے مشہور ٹنڈے کبابی نے
مٹن اور چکن کباب بیچنا شروع کردیا تھا، مگر جلد ہی اب نان ویج کے شوقین
لوگوں کو مٹن کباب سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔بریانی اور کباب کے لئے مشہور
راجدھانی لکھنؤ اب پوری طرح سے سبزی خور ہونے جا رہی ہے۔ سلاٹر ہاوس کے
خلاف کارروائی سے بڑے کا گوشت تو بند ہو گیا تھا، لیکن مٹن اور چکن سے نان
ویج شوقین اور گوشت کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کام چل رہا تھا، لیکن اب
دارالحکومت کی تمام مٹن شاپ بند ہونے جا رہی ہیں۔ کیونکہ میونسپل نے کسی
بھی دکان کے لائسنس کی تجدید کرنے سے انکار کردیا ہے۔ لہذا راجدھانی میں اب
تمام مٹن کی دوکانیں بھی غیر قانونی ہوگئی ہیں اور انہیں بند کرنا ہوگا۔
لکھنؤ میں تقریبا 600 مٹن کی دکانیں ہیں، جن میں سے دکانوں کے پاس 31
مارچ تک مٹن فروخت کرنے کا لائسنس تھا۔ علاوہ ازیں دیگر دکانوں کے لائسنس
یا تو پہلے ہی ختم ہو چکے تھے یا پھر کئی نے سالوں سے اپلائي ہی نہیں کیا
تھا ۔ میونسپل نے دکانوں کو ، جن کے لائسنس 31 مارچ کو ختم ہو رہا تھا ،
انہیں 15 دن کی مہلت دی تھی۔ لیکن ان کا بھی لائسنس 15 اپریل کو ختم ہو
گیا۔ اب میونسپل کا کہنا ہے کہ وہ ان کی دکانوں کو نیا لائسنس جاری نہیں
کریں گے۔ میونسپل اس فیصلہ کے بعد سے گوشت کے تاجروں کے سامنے نیا بحران
پیدا ہو گیا ہے۔
لکھنؤ میونسپل کمشنر اودے
راج سنگھ کے مطابق پہلے ہماری کوشش ہوگی کی تمام
گوشت کی دکانوں کو بند کریں، کیونکہ ان کے پاس اب گوشت فروخت کرنے کا
لائسنس نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس وقت تک کسی کا لائسنس رنيو نہیں
کریں گے ، جب تک ریاستی حکومت سے اس سلسلہ میں ہدایات نہیں مل جاتی ہیں ۔
اگلی ہدایات تک کسی بھی دکان میں گوشت کی فروخت نہیں ہوگی۔ ہم نے پولیس کو
بھی ایسے دکانوں کی جانچ کے لئے کہہ دیا ہے۔
دریں اثنا میونسپل کے اس اعلان کے بعد گوشت تاجروں میں بھی غصہ پھوٹ پڑا ہے
۔ تاجروں نے پرانے لکھنؤ کے شہید اسمارک پر مظاہرہ کیا اور تجدید لائسنس
کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لائسنس کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے ان کے
سامنے زندگی بسر کرنے کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ گوشت تاجروں نے یوگی حکومت
سے اقتصادی امداد بھی مانگی ہے ۔ تاکہ وہ آلودگی کنٹرول بورڈ اور فوڈ
سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈس کے معیار کے مطابق اپنی دکانوں کو تیار کر سکیں۔
لکھنؤ بکری ومرغ گوشت وياپاری منڈل کے سکریٹری عبد الحامد نے کہا کہ اس
فیصلہ سے خریداروں اور ان کے خاندانوں پر بہت اثر پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ
ایسا قدم اٹھانے سے پہلے کوئی متبادل نظام لایا جانا چاہئے تھا۔انہوں نے
کہا کہ یہی تجارت ہی ہماری اور اس سے وابستہ لوگوں کے آمدنی کا ذریعہ ہے،
جس سے ہم اپنے خاندان کا پیٹ بھر پاتے ہیں۔ حکومت ہماری نہیں سن رہی ہے ،
تو ہمیں احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔